اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمانوں کی راضح اکثریت کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں اور ہر مذہب کی عبادت گاہیں اور ان کے مذہبی پیشوا انتہائی قابل احترام ہوتے ہیں ان کے پیروکار ان کی بتاتی ہوئی باتوں کو خاص توجہ سے سنتے ہیں۔

اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مسلمان اکثریتی ملک پاکستان میں ”مسجد“ ایک انتہائی قابل تکریم ادارہ ہے جس کا انتظام و انصرام ”مذہبی علماء”کے ہاتھ میں ہوتاہے اورسٹیج سے کی گئی بات کو ملک کی بیشتر آبادی انتہائی احترام سے سنتی ہے آج کل پوری دنیا کی طرح پاکستان ”کرونا وائرس“ کی لپیٹ میں ہے اور پوری دنیا میں اب تک ایک لاکھ پچاس ہزار افراد اس بیمار ی کے ہاتھوں اپنی جان گنوا چکے ہیں 20لاکھ کے قریب زندگی اوراموات کی کشمکش میں مبتلاہیں (خدا انکو صحت یابی عطا فرمائے) طبی ماہرین کے مطابق اس بیماری کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوااوران کے مطابق اس کی ویکسین تیارکرنے میں ابھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں اوراس سے بچاؤ صرف احتیاطی تدابیر سے ہی ممکن ہے جن میں ماسک پہنا، باربار ہاتھ دھونا، اورایک انسان کا دوسرے انسان سے تقریبا 6فٹ دور رہنا۔

یہ جان لیوا وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے اورہم کسی صورت میں بھی ان احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرکے اپنی زندگی کے ساتھ دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے تمام مذاہب میں زندگی کی حرمت کو اولین حیثیت حاصل ہے یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ دیگر اداروں کی طرح ہمارے مذہبی رہنماؤں نے بھی ان غیر معمولی حالات میں اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسجد میں اجتماعی عبادت کے لیے حکومتی اورطبی ماہرین کی ہدایات کے مطابق اصول وضع کیئے۔

بھیرہ شہر کی تاریخی مسجد شیرشاہ سور ی کی مہتم اور خانقاہ بگویہ سیکنڑ وں سال سے احیاء دین کے لیے سرگرم عمل ہے ان کے امیر صاحبزادہ ابرار احمد بگوی کی طر ف سے اس سلسلہ میں جاری اعلایہ نات بہت حوصلہ افزا ہیں جو یقینا اسلامی احکامات، اصولوں اور روایات کے عین مطابق ہے۔

۱۔ مرکزی جامع مسجد بگویہ بھیرہ میں نماز جمعہ کی جماعت اسی ہنگامی حالت میں قریبی محلہ کے نمازیوں تک محدود رہے گی اہل محلہ اپنی اپنی جائے نماز ساتھ لائیں نوافل، سنتیں گھر ادا فرمائیں،مصافحہ، معانقہ سے اجتناب کریں ہم سب کی بہتری اسی میں ہے۔ اللہ رب الکریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین بجاہ نبی الکریم ﷺ التماس حکومتی ہدایات کے تحت مساجد سے دریاں اٹھا دی گی ہیں لہذا جانماز ہمراہ لائیں دیگر مساجد کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ یہ حفاظتی تدبیر اپنائیں۔

۲۔ ہر شہر کی مساجد میں نماز جمعہ حکومتی ہدایات کے مطابق صرف 5افراد نے ادا کی اس سلسلہ میں مفتی شہر صاحبزادہ ابراراحمد بگوی کی طرف سے مساجد میں اعلانات کے ذریعے عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ اس موذی وائرس سے بچاؤ کے لیے مساجد میں اکٹھا ہونے کی بجائے نماز جمعہ اپنے گھروں میں ہی ادا کریں۔

۳۔ انفرادی عبادت اور توبہ استغٖفار کی رات اپنے اپنے گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارہیے مرکزی جامع مسجد بگویہ بھیرہ میں اس دفعہ کورنا وائرس سے حفاظتی /احتیاطی تدابیر کی تحت کوئی محفل /اجتماعی نوافل نہیں ہونگے اپنی دعاؤں میں دنیا بھر کے انسانوں کی صحت، خیر مانگیئے۔

یقیناپوری بنی نوح انسانیت بالخصوص مسلمانوں کے لیے یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے محبوب ترین مقامات سے وقتی طورپر دور ہونا پڑھ رہا ہے لیکن ہم اپنے رب کو راضی کرنے، اپنی غلطیوں سے معافی مانگنے اور اپنے معمولات کو درست رکھنے کے لیے جید علما، طبی ماہرین اور حکومت کے بتائے ہوئے طریقوں سے اپنے عبادتی فرائض سرانجام دینے چاہیں ان حالات سے نبرد آزماء ہونے کے لیے اسوۃ حسنہ ﷺ سے بھی کچھ مثالیں بھی ہمیں رہنمائی عطا فرماتی ہیں۔

”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضبحنان پراذان دی پھر فرمایا”الا صلوا فی الرحال“ کہ  لوگو!اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اورہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ موذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ موذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا۔

صحیح بخاری شریف حدیث نمبر632

”نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سن لو کہ کس جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اورتم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت) حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا کہ میں نے ابراہیم بن سعد سے کہا تم نے خود یہ حدیث اسامہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے کہ انہوں نے سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کیا اورانہوں نے اس کا انکار نہیں کیا؟ فرمایا کہ ہاں

صحیح بخاری شریف حدیث نمبر 5728

نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ قبیلہ ثقیف تشریف فرما ہوئے جو ان کے ہاتھ پر بعیت کرنا چاہتے تھے وہاں پر ایک شخص معتدی بیماری میں مبتلا تھے متاثر ہ فرد سے مصافحہ کرنے سے بچنے کے لئے،آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کے پاس سے ایک شخص بھیجا گیا اور بیعت کا روایتی طریقہ اپنائے بغیرہاتھ ملائے بیعت لے لی گئی۔(حدیث امام مسلم کی روایت ہے)

کرونا وائرس کی وجہ سے پوری انسانیت ایک انتہائی مشکل اور تکلیف دہ مراحل میں سے گزر رہی ہے جس طرح اس بیماری میں مبتلا شخص کے ساتھ تیماداری اس کی تدفین اورجنازہ کے معاملات میں معاشرہ نے انتہائی کرب کے ساتھ سمجھوتہ کیاہے اس طرح اب علما ء کرام کی ذمہ داری اور ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ انسانیت کو اس وبا سے بچنے کے لیے مساجد میں اجتماعی عبادات کرنے میں لوگوں کو ان غیر معمولی حالات میں طبی ماہرین کی بتائی ہوئے ہدایات اور اسلامی اصولوں کے مطابق ادا کرنے کی تلقین اور مثبت واضح ہدایات جاری فرمائیں ہم امید کرتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے مذہبی رہنما بھی اپنے پیروکاروں کے لیے اس ضمن میں رہنما اصول وضع کریں گے۔

اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*